زخم تازہ برگ گل میں منتقل ہوتے گئے
پنجۂ سفاک میں خنجر خجل ہوتے گئے
دید کے قابل تھا ان صحرا نوردوں کا جنوں
منزلیں ملتی گئیں ہم مضمحل ہوتے گئے
نور کا رشتہ سواد جسم سے کٹتا گیا
ہم بھی آخر باد و آتش آب و گل ہوتے گئے
خون میں اونچے چناروں کے نہ حدت آ سکی
یوں بظاہر سبز پتے مشتعل ہوتے گئے
دل کے دفتر میں تھا جذبوں کا تقرر عارضی
ہاں جو ان میں معتبر تھے مستقل ہوتے گئے
جیسے جیسے آگہی بڑھتی گئی ویسے ظہیرؔ
ذہن و دل اک دوسرے سے منفصل ہوتے گئے
غزل
زخم تازہ برگ گل میں منتقل ہوتے گئے
ظہیر صدیقی