EN हिंदी
زخم جگر کو دست جراحت سے پوچھئے | شیح شیری
zaKHm-e-jigar ko dast-e-jarahat se puchhiye

غزل

زخم جگر کو دست جراحت سے پوچھئے

شاہد کمال

;

زخم جگر کو دست جراحت سے پوچھئے
جو رہ گئی دلوں میں وہ حسرت سے پوچھئے

جاں دادگان عیش کا انجام کیا ہوا
آوارگان کوچۂ وحشت سے پوچھئے

میں کھو گیا ہوں اپنی ضرورت کی بھیڑ میں
میں کیا ہوں مجھ کو میری ضرورت سے پوچھئے

افسوس ہے مجھے مری غیرت کی موت پر
کیوں کی ہے خودکشی مری غربت سے پوچھئے

ہم کیوں ہوس پرستی کا الزام دیں اسے
سب آج اپنی اپنی محبت سے پوچھئے

کہتے ہیں کس کو حشر قیامت ہے کس کا نام
ہم ساکنان شہر قیامت سے پوچھئے

کھلتے کہاں ہیں سب پہ یہ اسرار حرف کے
رمز سخن کو اہل فراست سے پوچھئے

کیوں وہ زباں دراز بھی خاموش ہو گیا
شاہدؔ کمال اس کی رعونت سے پوچھئے