EN हिंदी
زخم دل تجھ سے میں چھپاؤں کیا | شیح شیری
zaKHm-e-dil tujhse main chhupaun kya

غزل

زخم دل تجھ سے میں چھپاؤں کیا

پرمود شرما اثر

;

زخم دل تجھ سے میں چھپاؤں کیا
درد سہہ کر بھی مسکراؤں کیا

ہو اجازت تو تیری محفل میں
اپنی قسمت کو آزماؤں کیا

کیوں اشاروں میں کہہ رہا ہے تو
صاف کہہ دے کہ بھول جاؤں کیا

یوں تو یہ دور ہے لطیفوں کا
تم کہو تو غزل سناؤں کیا

عیش و عشرت کے واسطے اے دل
داؤ ایمان کا لگاؤں کیا

سب کا کردار جو سجاتا ہے
آئنہ وہ تجھے دکھاؤں کیا

روٹی کپڑا مکاں ملے سب کو
خواب ایسے اثرؔ سجاؤں کیا