زخم دل تجھ سے میں چھپاؤں کیا
درد سہہ کر بھی مسکراؤں کیا
ہو اجازت تو تیری محفل میں
اپنی قسمت کو آزماؤں کیا
کیوں اشاروں میں کہہ رہا ہے تو
صاف کہہ دے کہ بھول جاؤں کیا
یوں تو یہ دور ہے لطیفوں کا
تم کہو تو غزل سناؤں کیا
عیش و عشرت کے واسطے اے دل
داؤ ایمان کا لگاؤں کیا
سب کا کردار جو سجاتا ہے
آئنہ وہ تجھے دکھاؤں کیا
روٹی کپڑا مکاں ملے سب کو
خواب ایسے اثرؔ سجاؤں کیا

غزل
زخم دل تجھ سے میں چھپاؤں کیا
پرمود شرما اثر