EN हिंदी
زخم دل ہم دکھا نہیں سکتے | شیح شیری
zaKHm-e-dil hum dikha nahin sakte

غزل

زخم دل ہم دکھا نہیں سکتے

آسی غازی پوری

;

زخم دل ہم دکھا نہیں سکتے
دل کسی کا دکھا نہیں سکتے

وہ یہاں تک جو آ نہیں سکتے
کیا مجھے بھی بلا نہیں سکتے

وعدہ بھی ہے تو ہے قیامت کا
جس کو ہم آزما نہیں سکتے

آپ بھی بحر اشک ہیں گویا
آگ دل کی بجھا نہیں سکتے

ان سے امید وصل اے توبہ
وہ تو صورت دکھا نہیں سکتے

ان کو گھونگھٹ اٹھانے میں کیا عذر
ہوش میں ہم جو آ نہیں سکتے

مانگتے موت کی دعا لیکن
ہاتھ دل سے اٹھا نہیں سکتے

ان کو دعوائے یوسفی آسیؔ
خواب میں بھی جو آ نہیں سکتے