EN हिंदी
زخم دل اور ہرا خون تمنا سے ہوا | شیح شیری
zaKHm-e-dil aur hara KHun-e-tamanna se hua

غزل

زخم دل اور ہرا خون تمنا سے ہوا

مظفر وارثی

;

زخم دل اور ہرا خون تمنا سے ہوا
تشنگی کا مری آغاز ہی دریا سے ہوا

چبھ گئی حلق میں کانٹوں کی طرح پیاس مری
دشت سیراب مرے آبلۂ پا سے ہوا

دل زندہ کو چنا درد کی دیواروں میں
روک لیتی مجھے اتنا بھی نہ دنیا سے ہوا

سر میں سودا تھا مگر پاؤں میں زنجیر نہ تھی
خاک اڑاتا رہا منسوب نہ صحرا سے ہوا

پھیر دیں کس نے سلاخیں سی مری آنکھوں میں
کون انگشت نما طاق تماشا سے ہوا

دور جا کر مری آواز سنی دنیا نے
فن اجاگر مرا آئینۂ فردا سے ہوا

بو مزاجوں سے گئی رنگ اڑے چہروں کے
خوش یہاں کون مرے دیدۂ بینا سے ہوا

اجنبی سا نظر آیا ہوں مظفرؔ خود کو
بے تکلف جو میں اس عہد شناسا سے ہوا