زخم اگر گل ہے تو پھر اس کا ثمر بھی ہوگا
ہجر کی رات میں پوشیدہ قمر بھی ہوگا
حوصلہ داد کے قابل ہے یقیناً اس کا
اس کو معلوم تھا دریا میں بھنور بھی ہوگا
کون سنتا ہے یہاں پست صدائی اتنی
تم اگر چیخ کے بولو تو اثر بھی ہوگا
کچھ نہ کچھ رخت سفر پاس بچا کر رکھنا
اک سفر اور پس ختم سفر بھی ہوگا
مطمئن رہئے یوں ہی خود کو تسلی دیجے
یہی جینا یہی جینے کا ہنر بھی ہوگا
عمر گزری ہے اسی ایک تمنا میں ندیمؔ
مجھ سے بے گھر کا کہیں شہر میں گھر بھی ہوگا
غزل
زخم اگر گل ہے تو پھر اس کا ثمر بھی ہوگا
جاوید ندیم