زہر تو لا جواب تھا اس کا
دن ہی شاید خراب تھا اس کا
جبکہ میرا سوال سیدھا تھا
پھر بھی الٹا جواب تھا اس کا
وہ محض دھوپ کا مسافر تھا
ہم سفر آفتاب تھا اس کا
آنکھ جیسے کوئی سمندر ہو
اور لہجہ شراب تھا اس کا
مطمئن تھا وہ ذات سے اپنی
خود ہی وہ انتخاب تھا اس کا
غزل
زہر تو لا جواب تھا اس کا
ناصر راؤ