زہر میں بجھتی ہوئی بیل ہے دیوار کے ساتھ
جیسے اک نائکہ بیٹھی ہو گنہ گار کے ساتھ
مجھ سے ملنا ہے تو یہ قید نہیں مجھ کو پسند
ہر ملاقات مقید رہے اتوار کے ساتھ
ایک ہی وار میں مرنے سے کہیں بہتر ہے
ایک اک سر وہ جو کٹتا رہے تلوار کے ساتھ
میں نے ہر گام پہ ان لوگوں کو مرتے دیکھا
وہ جو جیتے رہے اس دور میں کردار کے ساتھ
یہ جہاں مفلس و نادار کا ہمدرد ہو کیوں
جس کے ہر کونے پہ تحریر ہے زردار کے ساتھ
کوئی شاعر مرے مرنے کی خبر لایا ہے
ایک سہہ کالمی سرخی لئے اخبار کے ساتھ
جشن خوں ناب ہے مقتل میں مغنی سے کہو
کوئی اک راگ نیا گیت ہو ملہار کے ساتھ
میں بھی اس شہر خموشاں کا ہی ساکن ہوں امیدؔ
جس کی ہر لوح پہ تحریر ہے آزار کے ساتھ
غزل
زہر میں بجھتی ہوئی بیل ہے دیوار کے ساتھ
امید خواجہ