زہر کو مے دل صد پارہ کو مینا نہ کہو
دور ایسا ہے کہ پینے کو بھی پینا نہ کہو
نہ بتاؤ کہ تبسم بھی ہے اک زخم کا نام
چاک ہے کس لیے انسان کا سینہ نہ کہو
کم نگاہوں کا ہے فرمان کہ اے دیدہ ورو
کس لیے تم کو ملا دیدۂ بینا نہ کہو
رکھ دو الزام کسی موجۂ معصوم کے سر
ناخداؤں نے ڈبویا ہے سفینہ نہ کہو
ہر نفس موت کی بخشی ہوئی مہلت جیسے
کوئی جینا ہے یہ جینا اسے جینا نہ کہو
یہ تو فن کار کی محنت کا صلہ ہے یارو
میرے ماتھے کے پسینے کو پسینا نہ کہو
سنگ ریزوں کو کہیں ٹھیس نہ لگ جائے شمیمؔ
مصلحت ہے کہ نگینے کو نگینہ نہ کہو
غزل
زہر کو مے دل صد پارہ کو مینا نہ کہو
شمیم کرہانی