EN हिंदी
زہر کے گھونٹ پی رہے ہیں ہم | شیح شیری
zahr ke ghunT pi rahe hain hum

غزل

زہر کے گھونٹ پی رہے ہیں ہم

وقار حلم سید نگلوی

;

زہر کے گھونٹ پی رہے ہیں ہم
تیری نظروں میں جی رہے ہیں ہم

خوب ہے سوزن مژہ بھی تری
دل کے زخموں کو سی رہے ہیں ہم

گھر تو گھر سر دئے ہیں غربت میں
دشت میں بھی سخی رہے ہیں ہم

شوخ ہوں میکدے ہوں محفلیں ہوں
ہر جگہ متقی رہے ہیں ہم

تیرے کوچے کی گفتگو ہے فضول
تیرے تو دل میں بھی رہے ہیں ہم

پیش خدمت ہیں کوثر و تسنیم
کشتۂ تشنگی رہے ہیں ہم

دے دئے روٹیوں سمیت شتر
مفلسی میں غنی رہے ہیں ہم

نفس کے شر سے حلمؔ بچ کے رہو
مدتوں سے دکھی رہے ہیں ہم