زہر دیتا ہے کوئی کوئی دوا دیتا ہے
جو بھی ملتا ہے مرا درد بڑھا دیتا ہے
کسی ہم دم کا سر شام خیال آ جانا
نیند جلتی ہوئی آنکھوں کی اڑا دیتا ہے
پیاس اتنی ہے میری روح کی گہرائی میں
اشک گرتا ہے تو دامن کو جلا دیتا ہے
کس نے ماضی کے دریچوں سے پکارا ہے مجھے
کون بھولی ہوئی راہوں سے صدا دیتا ہے
وقت ہی درد کے کانٹوں پہ سلائے دل کو
وقت ہی درد کا احساس مٹا دیتا ہے
نقشؔ رونے سے تسلی کبھی ہو جاتی تھی
اب تبسم مرے ہونٹوں کو جلا دیتا ہے
غزل
زہر دیتا ہے کوئی کوئی دوا دیتا ہے
نقش لائل پوری