EN हिंदी
ضبط سے یوں بھی کام لیا ہے | شیح شیری
zabt se yun bhi kaam liya hai

غزل

ضبط سے یوں بھی کام لیا ہے

شارب لکھنوی

;

ضبط سے یوں بھی کام لیا ہے
کانٹوں میں آرام لیا ہے

چاہے جدھر لے جائے محبت
اب تو دامن تھام لیا ہے

کاش وہی آرام سے رہتا
جس نے مرا آرام لیا ہے

حسن نے جب ٹھوکر کھائی ہے
عشق نے بازو تھام لیا ہے

ساقی کا احساں نہیں ہم پر
خون دیا ہے جام لیا ہے

ٹھوکر کھائی بڑھ گئے آگے
ناکامی سے کام لیا ہے

حسن بتاں کو دیکھ کے شاربؔ
ہم نے خدا کا نام لیا ہے