ضبط فغاں سے آ گئی ہونٹوں پہ جاں تلک
دیکھو گے میرے صبر کی طاقت کہاں تلک
غفلت شعارہا کے تغافل کہاں تلک
جیتا رہے گا کون ترے امتحاں تلک
وہ میری آرزو تھی جو گھٹ گھٹ کے رہ گئی
وہ دل کی بات تھی جو نہ آئی زباں تلک
گلشن میں آ کے تم تو عجب حال کر گئے
بھولے ہوئے ہیں مرغ چمن آشیاں تلک
پامال کرنے خاک اڑانے سے فائدہ
ایسے چلو کہ میرا مٹا دو نشاں تلک
یاد آئے چھٹ کے دام سے صیاد کے کرم
پہنچا دو مجھ کو کوئی مرے مہرباں تلک
شعلہؔ کے بعد ختم ہے ایجاد طرز نو
کچھ لطف تھا سخن کا اسی خوش بیاں تلک
غزل
ضبط فغاں سے آ گئی ہونٹوں پہ جاں تلک
شعلہؔ علی گڑھ