زباں پہ آہ نہ سینے پہ داغ لایا میں
تمہاری بزم سے کیا نامراد آیا میں
سراغ مہر و محبت کا ڈھونڈیو نہ کہیں
کہ ان کی راکھ ہوا میں بکھیر آیا میں
زمیں کی شمعوں سے جب دل کو روشنی نہ ملی
فلک سے چاند ستارے اتار لایا میں
خیال و فکر کی آوارگی ارے توبہ
نکل گیا جو کہیں ہاتھ ہی نہ آیا میں
ہزار قافلے مرگ و حیات کے گزرے
نہ درد نے کبھی تھاما نہ مسکرایا میں
شباب پر تھا چمن انتخاب گل کیسا
تمام پھول نظر میں سمیٹ لایا میں
کوئی سفر سا سفر تھا کوئی تھی باٹ سی باٹ
رہ حیات پہ دو گام چل نہ پایا میں
بجائے نالہ رضا بارہا ہوا ایسا
غموں کی شورش پیہم پہ مسکرایا میں
غزل
زباں پہ آہ نہ سینے پہ داغ لایا میں
کالی داس گپتا رضا