زباں پر آہ رہی لب سے لب کبھو نہ ملا
تری طلب تو ملی کیا ہوا جو تو نہ ملا
بدل کے روپ ملا وضع عامیانہ میں
لباس خاص پہن کر وہ خوبرو نہ ملا
وہ آرزو سے ملا جب کچھ آرزو نہ رہی
نہ جب تلک گئی ملنے کی آرزو نہ ملا
پیالہ روبرو آئے تو اشک خوں نہ بہا
شراب ناب میں اے چشم تر لہو نہ ملا
سنا دے ساقی دوراں کو نالہ ہائے مذاقؔ
سپہر خاک میں مستوں کی ہاو ہو نہ ملا

غزل
زباں پر آہ رہی لب سے لب کبھو نہ ملا
مذاق بدایونی