زباں کو حکم ہی کہاں کہ داستان غم کہیں
ادا ادا سے تم کہو نظر نظر سے ہم کہیں
جو تم خدا خدا کہو تو ہم صنم صنم کہیں
کہ ایک ہی سی بات ہے وہ تم کہو کہ ہم کہیں
ملے ہیں تشنہ میکشوں کو چند جام اس لیے
کہیں نہ حال تشنگی کہیں تو کم سے کم کہیں
ستم گران سادہ دل یہ بات جانتے نہیں
کہ وہ ستم ظریف ہیں ستم کو جو کرم کہیں
سبو ہو میرے ہاتھ میں تو کاسۂ گداگری
جو تم اٹھا لو جام تو لوگ جام جم کہیں
شمیمؔ وہ نہ ساتھ دیں تو مجھ سے طے نہ ہو سکیں
یہ زندگی کے راستے کہ زلف خم بہ خم کہیں
غزل
زباں کو حکم ہی کہاں کہ داستان غم کہیں
شمیم کرہانی