زباں ہے مگر بے زبانوں میں ہے
نصیحت کوئی اس کے کانوں میں ہے
چلو ساحلوں کی طرف رخ کریں
ابھی تو ہوا بادبانوں میں ہے
زمیں پر ہو اپنی حفاظت کرو
خدا تو میاں آسمانوں میں ہے
نہ جانے یہ احساس کیوں ہے مجھے
وہ اب تک مرے پاسبانوں میں ہے
سجا تو لیے ہم نے دیوار و در
اداسی ابھی تک مکانوں میں ہے
ہوا رخ بدلتی رہے بھی تو کیا
پرندہ تو اپنی اڑانوں میں ہے
غزل
زباں ہے مگر بے زبانوں میں ہے
امیر قزلباش