زبان خلق کو چپ آستیں کو تر پا کر
میں آب دیدہ ہوا خوں کو در بدر پا کر
یہ کس کے قرب کی خوشبو بسی ہے سانسوں میں
یہ مجھ سے کون ملا مجھ کو بے خبر پا کر
سفر کی شرط کبھی اس قدر کڑی کب تھی
تھکن کچھ اور بڑھی سایۂ شجر پا کر
وہ سبز تن تھا شفق پیرہن کھلا اس پر
بنا گلاب سا وہ لمس یک نظر پا کر
وہ ناشناس طبیعت ہے جانتا تھا میں
وہ حیرتوں میں رہا تیغ کو سپر پا کر
ابھی ابھی میں جسے دفن کر کے لوٹا ہوں
بہت عجیب لگا اس کو اپنے گھر پا کر
غزل
زبان خلق کو چپ آستیں کو تر پا کر
صدیق مجیبی