ذات کے کرب کو لفظوں میں دبائے رکھا
میز پر تیری کتابوں کو سجائے رکھا
تو نے اک شام جو آنے کا کیا تھا وعدہ
میں نے دن رات چراغوں کو جلائے رکھا
کس سلیقے سے خیالوں کو زباں دے دے کر
مجھ کو اس شخص نے باتوں میں لگائے رکھا
میں وہ سیتا کہ جو لچھمن کے حصاروں میں رہی
ہم وہ جوگی کہ الکھ پھر بھی جگائے رکھا
شاید آ جائے کسی روز وہ سجدہ کرنے
اسی امید پہ آنچل کو بچھائے رکھا
چوڑیاں رکھ نہ سکیں میری نمازوں کا بھرم
پھر بھی ہاتھوں کو دعاؤں میں اٹھائے رکھا
جانے کیوں آ گئی پھر یاد اسی موسم کی
جس نے شبنمؔ کو ہواؤں سے بچائے رکھا

غزل
ذات کے کرب کو لفظوں میں دبائے رکھا
رفیعہ شبنم عابدی