ظالم ہے وہ ایسا کہ جفا بھی نہیں کرتا
رستے سے بچھڑنے کا گلا بھی نہیں کرتا
ہر جرم و خطا سے مرے واقف ہے وہ پھر بھی
تجویز مرے نام سزا بھی نہیں کرتا
انسان ہے وہ کوئی فرشتہ تو نہیں ہے
حیرت ہے مگر کوئی خطا بھی نہیں کرتا
ہر شخص سے وہ ہاتھ ملا لیتا ہے رسماً
لیکن وہ کبھی دل سے ملا بھی نہیں کرتا
ویسے تو بنا رہتا ہے وہ پتلا وفا کا
کیا حال ہے میرا وہ پتا بھی نہیں کرتا
اس طور سے اس نے مجھے برباد کیا ہے
ایسے تو زمانے میں خدا بھی نہیں کرتا
فردوسؔ سے ملنا ہو تو میخانے میں ڈھونڈو
وہ شخص تو اب گھر میں رہا بھی نہیں کرتا
غزل
ظالم ہے وہ ایسا کہ جفا بھی نہیں کرتا
فردوس گیاوی