ظاہر مری شکست کے آثار بھی نہیں
مجھ کو یقین فتح کا اس بار بھی نہیں
قید مکاں سے دیکھیے کب تک رہائی ہو
اب تک تو بد گماں در و دیوار بھی نہیں
کس سحر کی گرفت میں آئے ہوئے ہیں ہم
آنکھیں بھی ہیں کھلی ہوئی بیدار بھی نہیں
جو کچھ کہ دل میں ہو بھری محفل میں کہہ سکے
ہر شخص میں یہ جرأت اظہار بھی نہیں
کیا اصل کائنات کو سیفیؔ سمجھ سکوں
مجھ پر عیاں تو ذات کے اسرار بھی نہیں

غزل
ظاہر مری شکست کے آثار بھی نہیں
بشیر سیفی