ضائع نہیں ہوتی کبھی تدبیر کسی کی
میری سی خدایا نہ ہو تقدیر کسی کی
ناحق میں بگڑ جانے کی عادت یہ غضب ہے
ثابت تو کیا کیجیے تقصیر کسی کی
قاصد یہ زبانی تری باتیں تو سنی ہیں
تب جانوں کہ لا دے مجھے تحریر کسی کی
بے ساختہ پہروں ہی کہا کرتے ہیں کیا کیا
ہم ہوتے ہیں اور ہوتی ہے تصویر کسی کی
ایسی تو نظامؔ ان کی نہ عادت تھی وفا کی
وہ جانے نہ جانے یہ ہے تاثیر کسی کی
غزل
ضائع نہیں ہوتی کبھی تدبیر کسی کی
نظام رامپوری