یوسف ہی زر خریدوں میں فیروز بخت تھا
قیمت میں جس کی پھر وہی شاہی کا تخت تھا
مجلس میں تیری کاوش مژگاں کے ہاتھ سے
غنچہ نمط ہر ایک جگر لخت لخت تھا
آنسو تو چیر کر صف مژگاں نکل گیا
لڑکا تھا خورد سال پہ دل کا کرخت تھا
تجھ پہ گداز دل ہے سراپا اے شمع رو
جوں نخل موم باغ میں ہر اک درخت تھا
ایمانؔ آفریں ہے کہ اس بدمزاج سے
یارانے کا نباہنا دشوار سخت تھا
غزل
یوسف ہی زر خریدوں میں فیروز بخت تھا
شیر محمد خاں ایمان