یوں ہی ٹھہر ٹھہر کے میں روتا چلا گیا
موتی سنبھل سنبھل کے پروتا چلا گیا
سانچوں میں حسن و نور کے ڈھلتا گیا شباب
سر تا قدم شباب ہی ہوتا چلا گیا
دشمن نے میری راہ میں کانٹے بچھا دئے
اور میں اٹھا تو پھول ہی بوتا چلا گیا
ہر نفس آرزو جو بعنوان ہوش تھا
جیسے کوئی شراب سے دھوتا چلا گیا
جھولا جھلا رہی تھی مجھے دل کی آرزو
سب جاگتے تھے اور میں سوتا چلا گیا
رنج و ملال و کیف و نشاط و بہار عمر
جو کچھ مجھے ملا اسے کھوتا چلا گیا
غم کا خموش نغمۂ دلسوز بھی نشورؔ
اک کیف سا رگوں میں سموتا چلا گیا
غزل
یوں ہی ٹھہر ٹھہر کے میں روتا چلا گیا
نشور واحدی