EN हिंदी
یوں ہی گر ہر سانس میں تھوڑی کمی ہو جائے گی | شیح شیری
yunhi gar har sans mein thoDi kami ho jaegi

غزل

یوں ہی گر ہر سانس میں تھوڑی کمی ہو جائے گی

جگت موہن لال رواںؔ

;

یوں ہی گر ہر سانس میں تھوڑی کمی ہو جائے گی
ختم رفتہ رفتہ اک دن زندگی ہو جائے گی

دیکھنے والے فقط تصویر ظاہر پر نہ جا
ہر نفس کے ساتھ دنیا دوسری ہو جائے گی

گر یہی فصل جنوں زا ہے یہی ابر بہار
عظمت توبہ نثار میکشی ہو جائے گی

مرگ بے ہنگام کہتے ہیں جسے آج اہل درد
کل یہی صورت بدل کر زندگی ہو جائے گی

ذکر ہے زنداں میں وہ گلزار پر بجلی گری
آج میرے آشیاں میں روشنی ہو جائے گی

سجدہ گاہ عام پر سجدے سے کچھ حاصل نہیں
مفت آلودہ جبین بندگی ہو جائے گی

ختم ہے شب چہرۂ مشرق سے اٹھتی ہے نقاب
دم زدن میں روشنی ہی روشنی ہو جائے گی

متصل ہیں ضعف و قوت کی حدیں ہاں ہوشیار
ورنہ اس ترک خودی میں خودکشی ہو جائے گی

زخم بھی تازہ ہے اور دل بھی نہیں مانوس درد
رفتہ رفتہ یوں ہی عادت صبر کی ہو جائے گی

شمع سا جب شام ہی سے ہے گداز دل رواںؔ
صبح تک کیا جانے کیا حالت تری ہو جائے گی