یوں زندگی کی ہم نے سیہ رات کاٹ دی
بن چھت کے گھر میں جیسے کہ برسات کاٹ دی
آتا ہو ملک و قوم کی عزت پہ جس سے حرف
ہم نے خدا گواہ وہ ہر بات کاٹ دی
گزری جو ناگوار ہمارے ضمیر کو
مل بھی گئی تو ہم نے وہ سوغات کاٹ دی
بن جائے وجہ دشمنی جو دو گھروں کے بیچ
بچوں کی ہم نے ایسی ملاقات کاٹ دی
طوفاں میں بھی خدا کے حوالے رہی حیات
یوں ہنس کے ہم نے گردش آفات کاٹ دی
ترک تعلقات کا انجام سوچ کر
ہم نے تمام عمر ترے ساتھ کاٹ دی
اہل غرض کی چلنے نہ دی کوئی ہم نے چال
مطلب پرست لوگوں کی ہر بات کاٹ دی
جن سے نہ کچھ ملا ہمیں رسوائی کے سوا
ان دوستوں کی ہم نے ملاقات کاٹ دی
نیرؔ کو لے چلی تھی جو شہر غرور میں
ہم نے وہ رہ گزار خرافات کاٹ دی
غزل
یوں زندگی کی ہم نے سیہ رات کاٹ دی
نیر قریشی گنگوہی