EN हिंदी
یوں زمانے میں مرا جسم بکھر جائے گا | شیح شیری
yun zamane mein mera jism bikhar jaega

غزل

یوں زمانے میں مرا جسم بکھر جائے گا

احمد ظفر

;

یوں زمانے میں مرا جسم بکھر جائے گا
مرے انجام سے ہر پھول نکھر جائے گا

جام خالی ہے صراحی سے لہو بہتا ہے
آج کی رات وہ مہتاب کدھر جائے گا

سیل گریہ مری آنکھوں سے یہ کہہ جاتا ہے
بستیاں روئیں تو دیا بھی اتر جائے گا

تو کوئی ابر گہربار سمندر کے لیے
دل کے صحرا سے جو چپ چاپ گزر جائے گا

آج یہ زلف پریشاں ہے زمانے کے لیے
کل یہی دور کسی طور سنور جائے گا

تیری ہر بات پہ مر جاتا ہوں مرتا بھی نہیں
کہ مری موت میں انساں کوئی مر جائے گا

اشک موتی سے بکھر جائیں گے راہوں میں جہاں
سوئے منزل بھی مرا دیدۂ تر جائے گا

میں مکیں ہوں نہ مکاں شہر محبت کا ظفرؔ
دل مسافر نہ کسی غیر کے گھر جائے گا