EN हिंदी
یوں اس پہ مری عرض تمنا کا اثر تھا | شیح شیری
yun us pe meri arz-e-tamanna ka asar tha

غزل

یوں اس پہ مری عرض تمنا کا اثر تھا

احسان دانش

;

یوں اس پہ مری عرض تمنا کا اثر تھا
جیسے کوئی سورج کی تپش میں گل تر تھا

اٹھتی تھیں دریچوں پہ ہماری بھی نگاہیں
اپنا بھی کبھی شہر نگاراں میں گزر تھا

ہم جس کے تغافل کی شکایت کو گئے تھے
آنکھ اس نے اٹھائی تو جہاں زیر و زبر تھا

شانوں پہ کبھی تھے ترے بھیگے ہوئے رخسار
آنکھوں پہ کبھی میری طرح دامن تر تھا

خوشبو سے معطر ہے ابھی تک وہ گزر گاہ
صدیوں سے یہاں جیسے بہاروں کا نگر تھا

ہے ان کے سراپا کی طرح خوش قد و خوش رنگ
وہ سرو کا پودا جو سر راہ گزر تھا

قطرے کی ترائی میں تھے طوفاں کے نشیمن
ذرے کے احاطے میں بگولوں کا بھنور تھا

اس آدم خاکی پہ ستاروں کی نظر تھی
اس خاک پہ کچھ جلوۂ‌ یزداں کا اثر تھا

میں رویا تو ہنسنے کی صدا آئی کئی یار
وہ جان تمنا پس دیوار‌ نظر تھا

دانشؔ تھا اکہرا مرا پیراہن ہستی
بے پردہ زمانے پہ مرا عیب و ہنر تھا