EN हिंदी
یوں تو وہ شکل کھو گئی گردش ماہ و سال میں | شیح شیری
yun to wo shakl kho gai gardish-e-mah-o-sal mein

غزل

یوں تو وہ شکل کھو گئی گردش ماہ و سال میں

خورشید رضوی

;

یوں تو وہ شکل کھو گئی گردش ماہ و سال میں
پھول ہے اک کھلا ہوا حاشیۂ خیال میں

اب بھی وہ روئے دل نشیں زرد سہی حسیں تو ہے
جیسے جبین آفتاب مرحلۂ زوال میں

اب بھی وہ میرے ہم سفر ہیں روش خیال پر
اب وہ نشہ ہے ہجر میں تھا جو کبھی وصال میں

ان کے خرام ناز کو بوئے گل و صبا کہا
ہم نے مثال دی مگر رنگ نہ تھا مثال میں

اہل ستم کے دل میں ہے کیا مرے کرب کا حساب
ان کو خبر نہیں کہ میں مست ہوں اپنے حال میں

کیسا پہاڑ ہو گیا وقت گزارنا مجھے
زخم پہ جم گئی نظر خواہش اندمال میں

تو نے مرے خمیر میں کتنے تضاد رکھ دیئے
موت مری حیات میں نقص مرے کمال میں