یوں تو وہ درد آشنا بھی ہیں
پاس رہتے ہوئے جدا بھی ہیں
جشن آزادگی بپا کیجے
کاسہ بردار رہنما بھی ہیں
ہے سفینہ اسیر موج بلا
یوں تو کہنے کو ناخدا بھی ہیں
یار بے مہر سے گلہ بھی ہے
اس سے مصروف التجا بھی ہیں
زندگی پر ہے اختیار ان کا
بندگان خدا خدا بھی ہیں
اس کے دکھ درد میں شریک رہے
دل زدہ دل کا آسرا بھی ہیں
غزل
یوں تو وہ درد آشنا بھی ہیں
سید نواب حیدر نقوی راہی