یوں تو شیرازۂ جاں کر کے بہم اٹھتے ہیں
بیٹھنے لگتا ہے دل جوں ہی قدم اٹھتے ہیں
ہم تو اس رزم گہ وقت میں رہتے ہیں جہاں
ہاتھ کٹ جائیں تو دانتوں سے علم اٹھتے ہیں
سہل انگار طبیعت کا برا ہو جس سے
ناز اٹھتے ہیں ترے اور نہ ستم اٹھتے ہیں
کوئی روندے تو اٹھاتے ہیں نگاہیں اپنی
ورنہ مٹی کی طرح راہ سے کم اٹھتے ہیں
نیند جاتی ہی نہیں عرض ہنر سے آگے
دفتر غم ہی سدا کر کے رقم اٹھتے ہیں
دن کی آغوش رضاعت سے نکل کر تابشؔ
رات کی رات کف خاک سے ہم اٹھتے ہیں
غزل
یوں تو شیرازۂ جاں کر کے بہم اٹھتے ہیں
عباس تابش