EN हिंदी
یوں تو ملنے کو اک زمانہ ملا | شیح شیری
yun to milne ko ek zamana mila

غزل

یوں تو ملنے کو اک زمانہ ملا

صفی اورنگ آبادی

;

یوں تو ملنے کو اک زمانہ ملا
نہ ملا ہاں وہ بے وفا نہ ملا

آشنائی میں کچھ مزا نہ ملا
آشنا درد آشنا نہ ملا

جب ملے وہ کھچے تنے ہی ملے
لطف ملنے کا اک ذرا نہ ملا

ہم نوا سب خزاں کے آتے ہی
ایسے پتہ ہوئے پتا نہ ملا

کھو کے دل کو ہم اس قدر خوش ہیں
جیسے قارون کا خزانہ ملا

شاد کیا ہوں حصول جنت پر
کہ رپئے میں سے ایک آنا ملا

عاشقی کیا ہے سچ جو پوچھو تو
ہم کو مرنے کا اک بہانہ ملا

زندگانی تھی یا پریشانی
سب کیا اور کچھ مزا نہ ملا

روئیے اس کی بد نصیبی پر
ڈھونڈھنے پر جسے خدا نہ ملا

مجھ سے ملنے میں کیا برائی ہے
آپ کے دل کا مدعا نہ ملا

مل گیا دل جو ہم سے ملنا تھا
آنکھ اب ہم سے تو ملا نہ ملا

کھچ کے ملنا بھی کوئی ملنا ہے
ایک ہے وہ جو یوں ملا نہ ملا

پھر سمائی صفیؔ سے ملنے کی
کیوں تمہیں کوئی دوسرا نہ ملا

قدر کرتا ہوں اپنی آپ صفیؔ
واہ مجھ کو بھی کیا زمانہ ملا