یوں تو ان آنکھوں سے ہم نے او بت کہنے کو دنیا دیکھی
لیکن ساری خدائی بھر تیری صورت یکتا دیکھی
کھیل گئے کیوں جاں پہ انجمؔ تم نے ابھی کیا دنیا دیکھی
مرنے لگے خوبان جہاں پر تیری میری دیکھا دیکھی
درد جگر کم تھا کہ نہیں تھا یہ تو بتا دم تھا کہ نہیں تھا
کہہ تو مریض میں کچھ بھی دیکھا نبض جو تو نے مسیحا دیکھی
اس کو بھلا کیوں کر چین آیا دل کو کیا کہہ کر سمجھایا
صورت تیری جس نے ستمگر تھام کے اپنا کلیجا دیکھی
وصل کی شب برہم ہی رہا وہ تا بہ سحر الجھا ہی کیا وہ
بل نہ گیا ابرو سے اس کی زلف بھی ہم نے سلجھا دیکھی
واہ رے وا اے نالۂ سوزاں دیکھ لی تیری ٹھنڈی گرمی
دل نہ پسیجا اس کافر کا آگ بھی تو نے بھڑکا دیکھی
اس کے دل سے گئی نہ کدورت دل کی دل ہی میں رہ گئی حسرت
ہم نے جھڑی اشکوں کی برسوں ان آنکھوں سے برسا دیکھی
ایک ذرا سے حشر پہ واعظ اس کو ڈراتا اللہ اللہ
جس نے بتوں کی گلی میں برسوں روز قیامت برپا دیکھی
جیسی زیست ہماری گزری دشمن کی بھی یوں نہ بسر ہو
انجمؔ حضرت دل کی بدولت ہم نے مصیبت کیا کیا دیکھی
غزل
یوں تو ان آنکھوں سے ہم نے او بت کہنے کو دنیا دیکھی
مرزا آسمان جاہ انجم