EN हिंदी
یوں تو ہنستے ہوئے لڑکوں کو بھی غم ہوتا ہے | شیح شیری
yun to hanste hue laDkon ko bhi gham hota hai

غزل

یوں تو ہنستے ہوئے لڑکوں کو بھی غم ہوتا ہے

والی آسی

;

یوں تو ہنستے ہوئے لڑکوں کو بھی غم ہوتا ہے
کچی عمروں میں مگر تجربہ کم ہوتا ہے

سگرٹیں چائے دھواں رات گئے تک بحثیں
اور کوئی پھول سا آنچل کہیں نم ہوتا ہے

اس طرح روز ہم اک خط اسے لکھ دیتے ہیں
کہ نہ کاغذ نہ سیاہی نہ قلم ہوتا ہے

ایک ایک لفظ تمہارا تمہیں معلوم نہیں
وقت کے کھردرے کاغذ پر رقم ہوتا ہے

وقت ہر ظلم تمہارا تمہیں لوٹا دے گا
وقت کے پاس کہاں رحم و کرم ہوتا ہے

فاصلہ عزت و رسوائی میں والیؔ صاحب
سنتے آئے ہیں کہ بس چند قدم ہوتا ہے