یوں تری تلاش میں تیرے خستہ جاں چلے
جیسے جھوم جھوم کر گرد کارواں چلے
آج یوں ہی ساقیا جام ارغواں چلے
جیسے بزم وعظ میں شیخ کی زباں چلے
راہ غم میں ہم سے وہ یوں کشاں کشاں چلے
جیسے بچ کے عشق سے حسن بدگماں چلے
دل دھڑک دھڑک اٹھا یوں کسی کو دیکھ کر
جس طرح بہار میں نبض گلستاں چلے
دل کی انجمن سے یوں جا رہا ہے ضبط غم
جیسے راز کھولنے کوئی راز داں چلے
شیخ جا رہا ہے یوں سوئے مے کدہ فناؔ
سر جھکا کے جس طرح عمر رائگاں چلے
غزل
یوں تری تلاش میں تیرے خستہ جاں چلے
فنا نظامی کانپوری