یوں تصور میں بسر رات کیا کرتے تھے
لب نہ کھلتے تھے مگر بات کیا کرتے تھے
ہائے وہ رات کہ سوتی تھی خدائی ساری
ہم کسی در پہ مناجات کیا کرتے تھے
یاد ہے بندگی اہل محبت جس پر
آپ بھی فخر و مباہات کیا کرتے تھے
ہم کبھی معتکف کنج حرم ہو کر بھی
سجدۂ پیر خرابات کیا کرتے تھے
یاد کرتا ہے اسی عہد گزشتہ کو شفیقؔ
جب تم الطاف و عنایات کیا کرتے تھے
غزل
یوں تصور میں بسر رات کیا کرتے تھے
شفیق جونپوری