یوں شور و شر کے سارے طلب گار سو گئے
سناٹے چیخنے لگے بازار سو گئے
پلکوں پہ بوجھ بن گئیں جب دن کی رونقیں
آنکھوں میں بھر کے خواب گراں بار سو گئے
دیوار و در بھی اپنی مرمت سے تنگ تھے
گر جائے اب مکان کہ معمار سو گئے
سورج کے ساتھ تو بھی لہو رو کے ڈوب جا
اے شام ہجر تیرے پرستار سو گئے
اشہرؔ کسی کے قرب ہوس ناک سے غرض
اپنا بھی دل تھا بھینچ کے اک بار سو گئے
غزل
یوں شور و شر کے سارے طلب گار سو گئے
اقبال اشہر قریشی