یوں سنگ دل حیات سے عہد و وفا کیا
دیوار درمیاں تھی مگر خود کو وا کیا
مٹی کا رنگ و نور سے رشتہ قدیم تھا
ہر بار زندگی نے نیا تجربہ کیا
تھے دسترس میں یوں تو سب اسرار کائنات
اس عمر بے وفا نے مگر نارسا کیا
ہر اجنبی مقام سے تنہا گزر گئے
اپنا ہی نقش پا تھا جسے رہنما کیا
چمکا دیا لہو نے دل تیرہ جسم کو
اک سیل نور تھا کہ رگوں میں بہا کیا
دانستہ لٹ گیا یہ سمن زار دیکھنا
پھولوں نے نکہتوں کو سپرد صبا کیا
یہ رات روشنی کی تمنا میں بجھ گئی
دل کو یہ کس شکست نے بے مدعا کیا
یوں تو جہاں تمام ہے طوفان رنگ ونور
کس آبشار نے ہمیں رنگیں نوا کیا

غزل
یوں سنگ دل حیات سے عہد و وفا کیا
اکبر حیدری