EN हिंदी
یوں نہیں چین تو غفلت کا ستم اور سہی | شیح شیری
yun nahin chain to ghaflat ka sitam aur sahi

غزل

یوں نہیں چین تو غفلت کا ستم اور سہی

میر محمد سلطان عاقل

;

یوں نہیں چین تو غفلت کا ستم اور سہی
ہم یہ سمجھیں گے کہ افزائش غم اور سہی

تم نہ آؤ گے تو کیا جان نہ جائے گی مری
آمد و رفت نفس کی کوئی دم اور سہی

کہتے ہیں ظلم کے بعد آہ کرو گے تو کیا
لشکر جور و جفا میں یہ علم اور سہی

جھک کے ملنے سے تمہارے مجھے خوف آتا ہے
گو یہ خم اور سہی تیغ کا خم اور سہی

اصل میں جلوہ یہ کس کا ہے تو ہی کہہ واعظ
تیرا رب اور سہی میرا صنم اور سہی

وعدۂ وصل کی تکرار پہ کہتے ہیں کہ جھوٹ
انہیں عہدوں میں ترے سر کی قسم اور سہی

جشن جمشید میسر ہے کہ دل رکھتے ہیں
جام یہ اور سہی ساغر جم اور سہی

خوب ہے تم میں جفا کی نہ رہے گی عادت
میرے بدلے بھی رقیبوں پہ کرم اور سہی