یوں نہ جان اشک ہمیں جو گیا بانا نہ ملا
دور لے جائے جو مجھ سے کوئی ایسا نہ ملا
خالی ہاتھ اب کے گزرنے نہ دی پیڑوں نے بسنت
پت جھڑ آئی تو کسی شاخ پہ پتا نہ ملا
اپنا سایہ ہی ڈراتا ہو تو کس سے کہیے
کہیے کس منہ سے کہ کس کو کوئی اپنا نہ ملا
آئنہ دیکھنے ٹھہرے تو نظر کانپ گئی
اور جو عکس ہمیں کو ہمیں ایسا نہ ملا
آنکھ میں دریا لیے پھرتے رہے برسوں تک
جس کے سینے میں اتر جاتا وہ صحرا نہ ملا
در کھلا تھا تو ہوا پیار لیے آئی تھی
بند ہے تو اسے باہر کوئی اپنا نہ ملا
اپنا ہی جسم بدل جائے گا کب علم تھا اشکؔ
اٹھے تو کل جہاں سوئے تھے وہ کمرہ نہ ملا
غزل
یوں نہ جان اشک ہمیں جو گیا بانا نہ ملا
بمل کرشن اشک