یوں لگے درد کی اس دل سے شناسائی ہے
موسم غم کی تبھی تو یہ لہر آئی ہے
توڑ کر رشتہ یوں الزام لگانے والے
بے وفا میں ہوں اگر تو بھی تو ہرجائی ہے
چاند نکلا نہیں تو بھی نہیں دکھتا اب تو
رات ہے میں ہوں اندھیرا ہے یے تنہائی ہے
راز تیرے جو چھپاؤں تو یہ دم گھٹتا ہے
بات کہہ دوں جو زمانے سے تو رسوائی ہے
جان لے کر وو گیا پھر بھی سچنؔ زندہ ہوں
بات معمولی نہیں اس کی مسیحائی ہے

غزل
یوں لگے درد کی اس دل سے شناسائی ہے
سچن شالنی