یوں کہنے کو پیرایۂ اظہار بہت ہے
یہ دل دل ناداں سہی خوددار بہت ہے
دیوانوں کو اب وسعت صحرا نہیں درکار
وحشت کے لیے سایۂ دیوار بہت ہے
بجتا ہے گلی کوچوں میں نقارۂ الزام
ملزم کہ خموشی کا وفادار بہت ہے
جب حسن تکلم پہ کڑا وقت پڑے تو
اور کچھ بھی نہ باقی ہو تو تکرار بہت ہے
خود آئینہ گر آئینہ چھوڑے تو نظر آئے
دہکا ہوا ہر شعلۂ رخسار بہت ہے
منصف کے لیے اذن سماعت پہ ہیں پہرے
اور عدل کی زنجیر میں جھنکار بہت ہے
غزل
یوں کہنے کو پیرایۂ اظہار بہت ہے
زہرا نگاہ