یوں جدا ہوئے میرے درد آشنا مجھ سے
ایک سے خفا ہوں میں دوسرا خفا مجھ سے
اک دیے سے کوشش کی دوسرا جلانے کی
اور اس عمل میں پھر وہ بھی بجھ گیا مجھ سے
تیری آرزو کیا ہے کیا نہیں سمجھتا میں
دیکھ اپنی خواہش کو اور مت چھپا مجھ سے
راہ کا شجر ہوں میں اور اک مسافر تو
دے کوئی دعا مجھ کو لے کوئی دعا مجھ سے
میں اجاڑ گلشن میں اس لیے ہی بیٹھا ہوں
بانٹتا ہے دکھ اپنا موجۂ صبا مجھ سے
غزل
یوں جدا ہوئے میرے درد آشنا مجھ سے
سجاد بلوچ