EN हिंदी
یوں جو ڈھونڈو تو یہاں شہر میں عنقا نکلے | شیح شیری
yun jo DhunDo to yahan shahr mein anqa nikle

غزل

یوں جو ڈھونڈو تو یہاں شہر میں عنقا نکلے

رجب علی بیگ سرور

;

یوں جو ڈھونڈو تو یہاں شہر میں عنقا نکلے
چاہنے والا جو چاہو تو نا اصلا نکلے

جی میں ہے چیر کے سینہ میں نکالوں دل کو
تا کسی ڈھب سے تو پہلو کا یہ کانٹا نکلے

مرض عشق یہ مہلک ہے کہ اس کے ڈر سے
چرخ چارم یہ جو ڈھونڈو تو مسیحا نکلے

ہے یقیں گور پہ گر میری تو آ جاوے کبھی
دید کو تیری مرا قبر سے مردا نکلے

جاں کنی میں ہے تڑپتا دل بیتاب سرورؔ
میرے عیسیٰ سے کہو یہاں بھی کبھی آ نکلے