یوں انتقام تجھ سے فصل بہار لیں گے
پھولوں کے سامنے ہم کانٹوں کے پیار لیں گے
جانے دو ہم کو تنہا طوفان آرزو میں
جب ڈوبنے لگیں گے تم کو پکار لیں گے
جو کچھ تھا پاس اپنے دنیا نے لے لیا ہے
اک جان رہ گئی ہے وہ غم گسار لیں گے
اس دور تشنگی میں کیا مے کدہ کو چھوڑیں
کچھ دن گزر گئے ہیں کچھ دن گزار لیں گے
صیاد و باغباں کے تیور بتا رہے ہیں
یہ لوگ فصل گل کے کپڑے اتار لیں گے
غزل
یوں انتقام تجھ سے فصل بہار لیں گے
فنا نظامی کانپوری