EN हिंदी
یوں ہی گلیوں میں مقدر در بدر میرا بھی ہے | شیح شیری
yun hi galiyon mein muqaddar dar-ba-dar mera bhi hai

غزل

یوں ہی گلیوں میں مقدر در بدر میرا بھی ہے

نونیت شرما

;

یوں ہی گلیوں میں مقدر در بدر میرا بھی ہے
کیوں نہیں سنتا مری تو کچھ اگر میرا بھی ہے

قاتلوں کو اب سزا ہو یا نہ ہو لیکن کسی
حاشیے پر اک بیان مختصر میرا بھی ہے

میں بھی جوجھا ہوں ہوا سے اس کبوتر کی طرح
دیکھ وہ آندھی میں اڑتا ایک پر میرا بھی ہے

پاؤں تیرے راستے تیرے سفر تیرا مگر
کیوں پسینے میں بدن پھر تر بہ تر میرا بھی ہے

درد کی وادی میں آہوں کا محلہ ہے جہاں
بس وہیں پہلی سڑک پر ایک گھر میرا بھی ہے

یوں نہ ہو میں بیٹھ جاؤں تیری پیچل کے بغیر
دھوپ میں صحرا کی اکتایا سفر میرا بھی ہے

کیسا پاگل پن کہ اس کے شہر میں دینی ہے جان
اب کہاں ہوں میں اکیلا ہم سفر میرا بھی ہے

اک اچٹتی سی نظر خالی محبت کی نظر
آسماں اک چاہئے مجھ کو کہ سر میرا بھی ہے

ساتھ ہوں گے ہم تو سچ میں پھول کھلتے جائیں گے
آپ کا ہی بس نہیں تنہا سفر میرا بھی ہے

خود سے بھی ملتا نہیں میں تجھ گلے ملنے کے بعد
ساتھ رکھنے میں تری خوشبو ہنر میرا بھی ہے

جب بھی کچھ میں نے کہا کیوں آپ تک پہنچا نہیں
آپ کا قاصد یقیناً نامہ بر میرا بھی ہے