یوں حسرتوں کی گرد میں تھا دل اٹا ہوا
جیسے درخت سے کوئی پتا گرا ہوا
ہو ہی گیا ہے نبض شناس غم جہاں
سینے میں عشق کے مرا دل کانپتا ہوا
ملتا سراغ خاک مجھے میرے سائے کا
ہر سمت ظلمتوں کا تھا جنگل اگا ہوا
کل رات خواب میں جو مقابل تھا آئنہ
میرا ہی قد مجھے نظر آیا بڑھا ہوا
جانے بھی دو وہ چاند نہیں ہوگا کوئی اور
پامال آدمی جو ہوا چاند کیا ہوا
باہر کے شور و غل ہی سے شاید وہ بول اٹھے
بیٹھا ہے کب سے چپ کوئی اندر چھپا ہوا
پنچھی اڑا تو ختم بھی ہو جائے گا ضیاؔ
سانسوں کے آنے جانے کا تانتا بندھا ہوا
غزل
یوں حسرتوں کی گرد میں تھا دل اٹا ہوا
ضیا فتح آبادی