یوں گزر رہا ہے دن کتنے امتحانوں سے
سایا سایا اتری ہے دھوپ آسمانوں سے
کیوں کہیں کسی سے ہم کون سی ہوا تھی وہ
روشنی چرا کر جو لے گئی مکانوں سے
آج اپنی مٹی سے اس طرح میں بچھڑی ہوں
جس طرح بچھڑتے ہیں لوگ خاندانوں سے
لگ چکی ہے ہونٹوں پر جن کے مہر خاموشی
ہم سوال کیا کرتے ایسے بے زبانوں سے
بس انہی کی تصویریں اب وہاں منقش ہیں
آئنے اٹھا لائے جو نگار خانوں سے
غزل
یوں گزر رہا ہے دن کتنے امتحانوں سے
نصرت مہدی