EN हिंदी
یوں گزر رہا ہے دن کتنے امتحانوں سے | شیح شیری
yun guzar raha hai din kitne imtihanon se

غزل

یوں گزر رہا ہے دن کتنے امتحانوں سے

نصرت مہدی

;

یوں گزر رہا ہے دن کتنے امتحانوں سے
سایا سایا اتری ہے دھوپ آسمانوں سے

کیوں کہیں کسی سے ہم کون سی ہوا تھی وہ
روشنی چرا کر جو لے گئی مکانوں سے

آج اپنی مٹی سے اس طرح میں بچھڑی ہوں
جس طرح بچھڑتے ہیں لوگ خاندانوں سے

لگ چکی ہے ہونٹوں پر جن کے مہر خاموشی
ہم سوال کیا کرتے ایسے بے زبانوں سے

بس انہی کی تصویریں اب وہاں منقش ہیں
آئنے اٹھا لائے جو نگار خانوں سے