یوں علاج دل بیمار کیا جائے گا
شربت دید سے سرشار کیا جائے گا
حسرت دید میں بینائی گنوا بیٹھے جو
اس سے کیسے ترا دیدار کیا جائے گا
سو رہا ہوں میں زمانے سے ترا خواب لیے
نیند سے کب مجھے بیدار کیا جائے گا
ٹوٹ جائے گا بھرم پریوں کی شہزادی کا
جب ترے حسن کو شہکار کیا جائے گا
خود کشی کی خبر اخبار کی سرخی ہوگی
قتل مجھ کو پس دیوار کیا جائے گا
میں صداقت ہوں مجھے موت نہیں آئے گی
ویسے مصلوب کئی بار کیا جائے گا
ان چراغوں کے تبسم میں لہو ہے میرا
کب ہواؤں کو خبردار کیا جائے گا
دل کے جذبات جواں اور بھی ہو جائیں گے
میری راہوں کو جو دشوار کیا جائے گا
ہوں گے شرمندہ منادر کے کلس بھی افضلؔ
کسی مسجد کو جو مسمار کیا جائے گا
غزل
یوں علاج دل بیمار کیا جائے گا
افضل الہ آبادی