یوں دیکھنے کو دیکھتے رہتے ہیں خواب لوگ
رکھتے ہیں روز و شب کا بھی لیکن حساب لوگ
اک روز زندگی نے کیا تھا کوئی سوال
کیا جانے کب سے ڈھونڈ رہے ہیں جواب لوگ
ہر چہرۂ سوال سے کرتے ہو خود سوال
تم لوگ بھی ہو شہر میں کیا لا جواب لوگ
ہر آسماں کو اپنی زمیں تک اتار لائے
کیا کیا نہ کر گزرتے ہیں خانہ خراب لوگ
غزل
یوں دیکھنے کو دیکھتے رہتے ہیں خواب لوگ
شاہد احمد شعیب