EN हिंदी
یوں دیکھنے کو دیکھتے رہتے ہیں خواب لوگ | شیح شیری
yun dekhne ko dekhte rahte hain KHwab log

غزل

یوں دیکھنے کو دیکھتے رہتے ہیں خواب لوگ

شاہد احمد شعیب

;

یوں دیکھنے کو دیکھتے رہتے ہیں خواب لوگ
رکھتے ہیں روز و شب کا بھی لیکن حساب لوگ

اک روز زندگی نے کیا تھا کوئی سوال
کیا جانے کب سے ڈھونڈ رہے ہیں جواب لوگ

ہر چہرۂ سوال سے کرتے ہو خود سوال
تم لوگ بھی ہو شہر میں کیا لا جواب لوگ

ہر آسماں کو اپنی زمیں تک اتار لائے
کیا کیا نہ کر گزرتے ہیں خانہ خراب لوگ